زمزمہ سرائی

( زَمْزَمَہ سَرائی )
{ زَم + زَمَہ + سَرا + ای }

تفصیلات


عربی زبان سے ماخوذ اسم 'زمزمہ' کے ساتھ فارسی صیغۂ امر 'سرا' کے ساتھ 'ئی' بطور لاحقۂ کیفیت لگانے سے 'زمزمہ سرائی' بنا۔ اردو میں بطور اسم استعمال ہوتا ہے۔ ١٨٨٨ء کو "طلسم ہوشربا" میں مستعمل ملتا ہے۔

اسم کیفیت ( مؤنث - واحد )
١ - زمزمہ پردازی، گانا گانا، نغمہ سرائی، نواسنجی۔
"دلوں میں محبت کی ہوا درخت اس سے بھیگے ہوئے پھول کھلے ہوئے جانوروں کی زمزمہ سرائی پر ایک معروف یاد الٰہی۔"      ( ١٨٨٨ء، طلسم ہوشربا، ٩٤٢:٣ )
٢ - [ مجازا ]  قصیدہ خوانی، تعریف کرنا، گن گانا، مداحی۔
"شو کی پوجا کرنے والے سورتھ کے سنکھ ہیں فتح مند شنکر کی زمزمہ سرائی کرتے ہیں۔"      ( ١٨٩٧ء، تاریخ ہندوستان، ١٧٢:٤ )