زمزمہ سرا

( زَمْزَمَہ سَرا )
{ زَم + زَمَہ + سَرا }

تفصیلات


عربی زبان سے ماخوذ اسم 'زمزمہ' کے ساتھ فارسی مصدر 'سرائیدن' سے مشتق صیغۂ امر 'سرا' بطور لاحقۂ فاعلی لگانے سے مرکب 'زمزمہ سرا' بنا۔ اردو میں بطور اسم استعمال ہوتا ہے۔ ١٨٩٦ء کو "طلسم ہوشربا" میں مستعمل ملتا ہے۔

اسم کیفیت ( مذکر - واحد )
جمع غیر ندائی   : زَمْزَمَہ سَراؤں [زَم + زَمہ + سَرا + اوں (و مجہول)]
١ - نواسنج، نغمہ سرا، نغمہ خواں۔
 ہم ایسی بزم میں کل صبح تک رہے کہ جہاں سکوت بھی تھا لب زمزمہ سرا کی طرح      ( ١٩٦٨ء، غزال و غزل، ٢٠ )