زمزمہ خوانی

( زَمْزَمَہ خوانی )
{ زَم + زَمَہ + خانی (و معدولہ) }

تفصیلات


عربی زبان سے ماخوذ اسم 'زمزمہ' کے ساتھ فارسی مصدر 'خواندن' سے مشتق صیغۂ امر 'خواں' کے ساتھ 'ی' بطور لاحقۂ کیفیت لگا کر 'زمزمہ خوانی' بنا۔ اردو میں بطور اسم استعمال ہوتا ہے۔ ١٩٢٢ء کو "مطلع انوار" میں مستعمل ملتا ہے۔

اسم کیفیت ( مؤنث - واحد )
١ - زمزمہ خواں ہونا، نغمہ خوانی، نغمہ سرائی۔
 نسیم صبح کے جھونکوں کی عطر افشانی یہ طائران نوازن کی زمزمہ خوانی      ( ١٩٢٢ء، مطلع انوار، ٢٧ )