حدبندی

( حَدْبَنْدی )
{ حَد + بَن + دی }

تفصیلات


عربی زبان سے مشتق اسم 'حد' کے ساتھ فارسی مصدر 'بستن' سے صیغہ امر 'بند' کے بعد 'ی' بطور لاحقۂ کیفیت لگانے سے مرکب بنا۔ اردو میں بطور اسم استعمال ہوتا ہے اور تحریراً سب سے پہلے ١٨٤٧ء کو "حملات حیدری" میں مستعمل ملتا ہے۔

اسم کیفیت ( مؤنث )
جمع   : حَدْ بَنْدِیاں [حَد + بَن + دِیاں]
جمع غیر ندائی   : حَدْ بَنْدِیوں [حَد + بَن + دِیوں (و مجہول)]
١ - کسی جگہ کے چاروں طرف باڑ لگانے یا احاطہ وغیرہ بنانے یا اس کے چوطرفہ سرے متعین کرنے کا عمل۔
"لوہے کے تاروں سے حد بندی کر کے ریلوے کمپنی نے یہاں ایک . آبادی قائم کر دی تھی۔"      ( ١٩٨٢ء، مری زندگی فسانہ، ٣٢ )
٢ - سرحد کا تعین۔
"یہ علاقہ بنجر اور تقریباً میدانی ہے جس کی حدبندی کوہ تسلی نے کر دی ہے۔"      ( ١٩٦٨ء، اردو دائرہ معارف اسلامیہ، ١٢٧:٣ )
٣ - رسائی، دسترس یا دائرہ کار کا تعین۔
"ہم ممکنات فطرت کی حدبندی نہیں کر سکتے۔"      ( ١٩٢٣ء، سیرۃ النبی، ١٢٧:٣ )
٤ - ایک دوسرے سے الگ ہونے کی کیفیت، تفریق، امتیاز۔
"زمانے دو نہیں تین ہیں اور . ان کی حدبندی نہیں کی جا سکتی۔"      ( ١٩٦٣ء، علامتوں کا زوال، ٩٧ )
٥ - باڑا، احاطہ، باڑ۔
"لان کی نیم بیضوی حدبندی پر . بے شمار رنگوں کے پھول کھلے ہیں۔"      ( ١٩٧٣ء، کپاس کا پھول، ٣٠٩ )
  • fixing the limits or boundaries (of)