حاضر باش

( حاضِر باش )
{ حا + ضِر + باش }

تفصیلات


عربی زبان سے مشتق اسم 'حاضر' کے ساتھ فارسی مصدر 'باشیدن' سے صیغہ امر 'باش' بطور لاحقۂ فاعلی لگانے سے مرکب بنا۔ اردو میں بطور اسم، صفت نیز حرف استعمال ہوتا ہے اور تحریراً سب سے پہلے ١٨٨٨ء کو "ابن الوقت" میں مستعمل ملتا ہے۔

حرف تنبیہ
١ - تیار ہو، ہوشیار رہو۔
"میں ہنگامہ صدائے حاضر باش و ناظر باش بلند چار پہر رات اسی ہنگامہ میں گزری۔"      ( ١٨٩٢ء، طلسم ہوش ربا، ٢٧٥:٦ )
اسم نکرہ ( مذکر )
جمع غیر ندائی   : حاضِر باشوں [حا + ضِر + با + شوں (و مجہول)]
١ - ہر وقت موجود رہنے والا، مصاحب۔
"چھت گری اور بادشاہ مع چند حاضر باشوں کے دب کر مر گیا۔"      ( ١٩٥٣ء، تاریخ مسلمانان پاکستان و بھارت، ٣٠٧:١ )
صفت ذاتی
جمع غیر ندائی   : حاضِر باشوں [حا + ضِر + با + شوں (و مجہول)]
١ - پابندی کے ساتھ رہنے والا، حاضری کا پابند، باقاعدگی سے آنے والا، موجود۔
"ٹائپ کی کلاسوں میں حاضر باش رہنے والیوں سے کئی بار میرا ٹاکرا ہوا۔"      ( ١٩٨١ء، راجہ گدھ، ١٢٤ )