حاشیہ بردار

( حاشِیَہ بَرْدار )
{ حا + شِیَہ + بَر + دار }

تفصیلات


عربی زبان سے مشتق اسم 'حاشیہ' کے ساتھ فارسی مصدر 'برداشتن' سے صیغہ امر 'بردار' بطور لاحقۂ فاعلی لگانے سے مرکب بنا۔ اردو میں بطور اسم استعمال ہوتا ہے اور تحریراً سب سے پہلے ١٦٧٨ء کو "کلیات غواصی" میں مستعمل ملتا ہے۔

اسم نکرہ ( مذکر )
جمع غیر ندائی   : حاشِیَہ بَرْداروں [حا + شِیَہ + بَر + دا + روں (و مجہول)]
١ - حاضر باش، حالی موالی، درباری، نوکر چاکر، حاشیہ نشین۔
تم جیسے سرکاری حاشیہ برداروں نے صیہونیوں سے زیادہ فلسطینیوں پر جبر و ستم کئے ہیں۔"      ( ١٩٨٢ء، میرے لوگ زندہ رہیں گے، ٨٦ )