فارسی زبان سے ماخوذ اسم 'در' کے بعد 'و' بطور حرف عطف لگا کر فارسی مصدر 'بستن' سے صیغہ امر 'بست' لگانے سے مرکب بنا۔ اردو میں بطور صفت نیز اسم استعمال ہوتا ہے اور تحریراً ١٨٢٢ء کو موسٰی کی "توریت مقدس" میں مستعمل ملتا ہے۔
"بیت و آہنگ کے چند تجربے تین ہی نظموں پر مشتمل ہیں "تازہ بستیاں"، "نغمہ نو روز" اور "بیتی برسات" اول دو کو منظوم فیچر کی ترقی یافتہ شکل کہنا چاہیے کیونکہ ان کے درو بست میں کوئی مربوط خاکہ نہیں۔"
( ١٩٨٤ء، تنقید و تفیم، ١٦٥ )
٢ - بندوبست، حد بندی۔
"یزید جیسا حکمران کہ اس کی مجرمانہ خود پرستی نے جگر گوشہ رسالت کے پاک خون سے اپنا دامن رنگ لیا اسلامی درو بست سے باہر نہ جا سکا۔"
( ١٩٢٢ء، نقش فرنگ، ٥٦ )