آئی گئی

( آئی گَئی )
{ آ + ای + گَئی }
( سنسکرت )

تفصیلات


سنسکرت سے ماخوذ اردو مصدر 'آنا' سے مشتق صیغہ ماضی مطلق 'آئی' کے ساتھ اردو مصدر جانا سے مشتق صیغہ ماضی مطلق 'گئی' ملانے سے مرکب بنا۔ اردو میں بطور اسم اور صفت مستعمل ہے۔ ١٨٥٤ء میں "کلیات ظفر" میں مستعمل ملتا ہے۔

صفت ذاتی
١ - بھولی بسری، فراموش کی ہوئی (بات وغیرہ)، وقت گزشت۔
 شدنی جو تھی وہ اسے قبلۂ حاجات ہوئی اب وہ آئی گئی اور حرف و حکایات ہوئی      ( کلام مہر، ١٩١٠ء، ١٢٥ )
اسم نکرہ ( مؤنث - واحد )
١ - آنے جانے والی (ملاقات وغیرہ کے لیے)۔
"جہاں لڑکی جوان ہوئی اسے اور زیادہ چھپانے لگتے ہیں حتٰی کہ آئی گئی عورتوں کے سامنے بھی نہیں نکلنے دیتے۔"      ( نشاط عمر، ١٩١١ء، ٢٠٠ )
٢ - نفع نقصان، (ہر طرح کی) مصیبت، پاداش، الزام۔
"لو دیکھا اماں کیسا ظلمی ہے، آئی گئی سب مجھی پر تھوپ دی۔"      ( ارمان، آغا شاعر، ١٩٢٠ء، ٨ )
٣ - دو ٹوک فیصلہ، تصفیہ کامل، توڑ، قطعیت۔
 دل رہین عشق ہو کر مال ان کا ہو گیا پھیر لیتے ہم اگر آئی گئی ہوتی نہیں      ( صوت تغزل، نظم، ١٩٣٣ء، ١٤٣ )