ظن بلیغ

( ظَنِ بَلِیغ )
{ ظَنے + بَلِیغ }
( عربی )

تفصیلات


عربی زبان سے ماخوذ اسم 'ظن' کے ساتھ کسرہ صفت لگا کر عربی اسم 'بلیغ' لگانے سے مرکب توصیفی بنا۔ اردو زبان میں بطور صفت استعمال ہوتا ہے۔ ١٩٣٤ء کو "ارمغان مجنوں" میں تحریراً مستعمل ملتا ہے۔

صفت ذاتی ( مذکر - واحد )
١ - وہ تقریر جو سامعین کے دل و دماغ تک پہنچ جائے، خطبہ بلیغ، وہ گمان جو یقین کے قریب پہنچ جائے۔
"میں نیاز صاحب سے درخواست کروں گا کہ وہ آئیں اور 'طور' صاحب کے اس ظن بلیغ کو دور کرنے میں میری مدد کریں۔"      ( ١٩٣٤ء، ارمغان مجنوں، ٣٥٢:٢ )