اسم نکرہ ( مذکر )
١ - خاطر مدارت، تواضح، آؤ بھگت، دلجوئی۔
"دوست دشمن سے دار و مدار رکھو، دوسرے سب کام مشورت سے کرو۔"
( ١٨٢٤ء، سیر عشرت، ١٧ )
٢ - نرمی، التفات۔
تمھارا غیر سے دار و مدار دیکھ چکے عنایت و کرم بے شمار دیکھ چکے
( ١٨٥٤ء، ریاض مصنف، ٥١٦ )
٣ - ٹھہراؤ، سکون، اطمینان۔
"خوب دلیری سے کام کرنے لگا مگر دار و مدار کے ساتھ کرتا تھا۔"
( ١٨٨٣ء، دربار اکبری، ٨٠٤ )
٤ - صلح صفائی، مصالحت۔
"اورنگ زیب نے سکندر عادل شاہ بیجاپور سے دار و مدار کر کے ایک کروڑ روپیہ کی پیشکش نقد و جنس کی بوعدۂ اقساط قبول کر لی۔"
( ١٨٩٧ء، تاریخ ہندوستان، ٨:٨ )
٥ - اختلاط، چھیڑ چھاڑ، ربط و ضبط۔
صحبت اغیار و یار دیکھئے کب تک رہے مجھ سے یہ دار و مدار دیکھئے کب تک رہے
( ١٩١١ء، ظہیر دہلوی، داستان غدر، ٢٢ )
٦ - عہد و پیمان، قول و قرار، وعدہ و وعید۔
دل سے سب محو کیے تو نے جو تھے قول و قرار بھولے اے عہد شکن تجھ کو وہ سب دار و مدار
( ١٨٠٩ء، جرأت (شعلۂ جوالہ)، ٣٠٧:١ )
٧ - انحصار
"جڑیں ہوا کی نمی کو جذب کرتی ہیں اور اس پر پورے کی زندگی کا دار و مدار ہے۔"
( ١٩٨١ء، آسان نباتیات، ٢٥:١ )
٨ - آقا، مالک، قابض، حاکم۔
وہی جلوہ ریز حرم میں ہے وہی نور بیت صنم میں ہے وہی تم میں ہے وہی ہم میں ہے وہی سب کا دار و مدار ہے
( ١٩٢٢ء، مطلع انوار، ٧٣ )