دارالامان

( دارُالْاَمان )
{ دا + رُل (الف غیر ملفوظ) + اَمان }
( عربی )

تفصیلات


عربی زبان سے ماخوذ اسم 'دار' کے ساتھ 'ال' بطور حرف تخصیص لگا کر عربی ہی سے مشتق اسم 'امان' لگانے سے مرکب بنا۔ اردو میں بطور اسم استعمال ہوتا ہے اور تحریراً ١٧٠٧ء سے "کلیات ولی" میں مستعمل ملتا ہے۔

اسم ظرف مکان ( مذکر )
١ - امن اور سلامتی کی جگہ، وہ مقام یا ملک جہاں انسان کی جان، مال اور عزت وغیرہ محفوظ رہے۔
"معاہدے کی نہایت اسم دفعہ وہ ہے جس میں مدینے کو دارالامن کا مرتبہ دیا گیا ہے۔"      ( ١٩٨٢ء، نوید فکر، ٥٣ )
٢ - [ فقہ ]  وہ ملک جہاں کا حاکم یا فرماں روا مسلمان نہ ہو اسلام اور شرعی قانون بھی وہاں نافذ نہ ہو البتہ مسلمان عبادات میں آزاد ہوں۔
"آپ کے (حضرت مولانا محمد انور شاہ کشمیری) نزدیک ہندوستان دارالحرب نہیں بلکہ دارالامان بلکہ زیادہ صحیح یہ ہے کہ فقہا کی اصطلاح میں (جس پر بحث آگے آرہی ہے) دارالعہد تھا۔"      ( ١٩٦٦ء، برہان، جولائی، ٥٧، ٧١١ )
٣ - خانہ کعبہ۔
"ان کو (حضرت خبیب انصاری) حرم سے باہر قتل کرنے کے لیے لے گئے کہ دارا دامن میں قتل ناجائز تھا۔"      ( ١٩٥٨ء، ابوالکلام آزاد، الہلال (انتخاب)، ١٣٩ )
  • house or abode of safety;  a country with which there is peace