داخلی خلفشار

( داخِلی خَلْفِشار )
{ دا + خِلی + خَل + فِشار }

تفصیلات


عربی زبان سے ماخوذ اسم 'داخلی' کے ساتھ فارسی سے ماخوذ اسم 'خلفشار' لگانے سے مرکب بنا۔ اردو میں بطور اسم استعمال ہوتا ہے اور تحریراً سب سے پہلے ١٩٨٣ء سے "تخلیق اور لاشعوری محرکات" میں مستعمل ملتا ہے۔

اسم مجرد ( مذکر )
جمع غیر ندائی   : داخِلی خَلْفِشاروں [دا + خِلی + خَل + فِشا + روں (و مجہول)]
١ - اندرونی کشمکش، قلبی الجھن، خوانی یا نجی پریشانی۔
"دیگر افراد بھی نفسی حوادث اور داخلی خلفشار سے دوچار ہو سکتے ہیں لیکن وہ ان کے فن کارانہ اظہار پر قادر نہیں ہوتے اس لیے ان کی اعصابیت کا یوں چرچا نہیں۔"      ( ١٩٨٣ء، تخلیق اور لاشعوری محرکات، ٣٩ )