دبکا

( دَبْکا )
{ دَب + کا }
( پراکرت )

تفصیلات


دب  دَبْکنا  دَبْکا

پراکرت زبان سے ماخوذ اردو مصدر 'دبکنا' سے حاصل مصدر 'دبکا' بنا۔ اردو میں بطور اسم استعمال ہوتا ہے۔ تحریراً ١٨٧٣ء سے "کلیات قدر" میں مستعمل ملتا ہے۔

اسم نکرہ ( مذکر - واحد )
واحد غیر ندائی   : دَبْکے [دَب + کے]
جمع   : دَبْکے [دَب + کے]
جمع غیر ندائی   : دَبْکوں [دَب + کوں (و مجہول)]
١ - ڈانٹ پھٹکار، دھمکی۔
"اس کی باتوں میں واشنگٹن ڈی سی کا دبکا تھا۔"      ( ١٩٨١ء، راجہ گدھ، ١٤٦ )
٢ - چوہوں کو مارنے کا آلہ جو چکی کے پاٹ کے مشابہ مٹی سے بنایا جاتا ہے۔
 ہیں میاں ٹکس غضب کے بڑے مخبر ہیں یہ سب کے بڑھے چوہے نئے ڈھب کے یہ لگائے گئے دبکے      ( ١٨٧٣ء، کلیات قدر، ٧٣٣ )