باش

( باش )
{ باش }
( فارسی )

تفصیلات


بودن  باش

فارسی زبان میں مصدر 'بودن' سے صیغۂ امر مشتق ہے اردو میں فارسی سے ماخوذ ہے۔ اردو میں بطور حرف مستعمل ہے۔ ١٨٧٩ء میں "بوستان خیال" میں مستعمل ملتا ہے۔

حرف تنبیہ ( مذکر )
١ - ٹھہر، دم لے، سن، صبر کر۔
 نیند ان کی اڑی جاتی ہے باش اے دل نالاں کیا اب بھی نہ ہو گا یہ ترا ورد سحر بند      ( ١٩١٧ء، کلیات حسرت، ١٠١ )
٢ - ہو، ہوا کرے (اظہار استغنا کے لیے)۔
 حد احساس سے اب ہے متجاوز غم دل باش دشواری منزل کہ یہ آسانی ہے      ( ١٩٣٠ء، نقوش مانی، ١٥٠ )
٣ - بطور لاحقہ آ کر رہنے والا یا ہونے والا کے معنی میں، جیسے : شب باش، یار باش، خوش باش۔
"ہم سمیوں کی تعریف مختصراً اس طریقے سے کر سکتے ہیں کہ یہ آزاد باش نامیے ہیں۔"      ( ١٩٦٧ء، بنیادی خرد حیاتیات، ١٠٣ )