اپنا بیگانہ

( اَپْنا بیگانَہ )
{ اَپ + نا + بے + گا + نَہ }

تفصیلات


سنسکرت زبان کے لفظ 'اپنا' کے ساتھ فارسی زبان سے اسم صفت بے گانہ لگایا گیا ہے جوکہ خود بھی مرکب ہے۔ اردو میں ١٨٣٢ء کو "دیوان رند" میں مستعمل ملتا ہے۔

اسم نکرہ ( مذکر - واحد )
١ - ہر شخص، سب، سبھی۔
 کون ایسا ہے جو مجھ بے کس کی دلداری کرے درپئے جاں دوست دشمن اپنا بیگانہ ہوا      ( ١٨٧٠ء، دیوان مہر، الماس درخشاں، ٢٣ )
٢ - عزیز، قریب۔
"اپنے بیگانے دوست آشنا پیشوائی کے واسطے گئے۔"      ( ١٨٧٤ء، نصیحت کا کرن پھول، ١٠٥ )
٣ - دوست دشمن۔
"جب رات فاقے سے گزر جاتی ہے تب جنگل میں جا کر لگا رہتا ہوں اس وقت حضور مجھ کو اپنا بیگانہ نہیں سوجھتا۔"      ( ١٨٩١ء، طلسم ہوشربا، ٤٤٩:٥ )
  • relations and strangers;  friends and foes