زخم زباں

( زَخْمِ زَباں )
{ زَخ + مے + زَباں }
( فارسی )

تفصیلات


فارسی زبان سے ماخوذ اسم زخم کے آخر پر کسرۂ اضافت لگا کر فارسی اسم 'زباں' لگانے سے مرکب اضافی 'زخم زباں' بنا۔ اردو میں بطور اسم استعمال ہوتا ہے۔ ١٨١٠ء کو "کلیات میر" میں مستعمل ملتا ہے۔

اسم کیفیت ( مذکر - واحد )
١ - بد زبانی کا دکھ یا رنج، وہ تکلیف جو کسی ناخوش گوار بات سے دل کو پہنچے۔
 دشنام دے کے بوسہ دیا ہم کو یار نے حلوا اسیر مرہم زخم زباں ہوا      ( ١٨٧٠ء، دیوان اسیر، ٥٥:٣ )