زخموں کی خراش

( زَخْمَوں کی خَراش )
{ زَخ + مَوں (و لین) + کی + خَراش }

تفصیلات


فارسی سے ماخوذ اسم 'زخم' کی جمع 'زخموں' کے ساتھ اردو حرف اضافت 'کی' کے ساتھ فارسی مصدر 'خراشیدن' سے مشتق صیغۂ امر 'خراش' بطور لاحقۂ فاعلی لگانے سے مرکب 'زخموں کی خراش' بنا۔ اردو میں بطور اسم استعمال ہوتا ہے۔ ١٩٤٦ء، کو "نبض دوراں" میں مستعمل ملتا ہے۔

اسم کیفیت ( مؤنث - واحد )
١ - زخموں کی رگڑ، زخموں کا نشان۔
 ہر زمانہ بیچتا آیا ہے زخموں کی خراش آج اک حیدر کی میت ! کل کسی ٹیپو کی لاش!      ( ١٩٤٦ء، نبض دوراں، ١٨٥ )