باغ فدک

( باغِ فِدَک )
{ با + غے + فِدَک }

تفصیلات


فارسی زبان میں اسم 'باغ' کے آخر پر کسرۂ اضافت لگا کر عربی زبان سے ماخوذ اسم 'فدک' لگانے سے مرکب اضافی 'باغ فدک' بنا۔ اردو میں بطور اسم مستعمل ہے۔ ١٧٧٢ء میں "انتخاب دیوان فغاں" میں مستعمل ملتا ہے۔

اسم معرفہ ( مذکر - واحد )
١ - مدینہ منورہ کے قریب 'خیبر' کے مقام پر واقع ایک زرخیز علاقے کا نام جو یہودیوں نے صلح کے موقع پر بغیر کسی جنگ کے آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی نذر کیا تھا اس لیے یہ حضور کی ذاتی ملکیت قرار پایا۔ وصال شریف کے بعد بی بی فاطمہ زہرا نے دعویٰ کیا کہ یہ باغ انھیں اپنے پدر بزرگوار کے ترکے میں ملنا چاہیے۔ یہ دعویٰ رد ہو گیا اور اس باغ کی آمدنی بیت المال کو ملنے لگی۔ بنی امیہ کے دور میں حضرت عمر بن عبدالعزیز خلیفہ ہوئے تو انھوں نے یہ باغ بنی فاطمہ کو واپس کر دیا۔
 باغ سخن کو حسن ریاض فلک ملا مجھ کو بغیر جنگ یہ باغ فدک ملا      ( ١٩١٢ء، شمیم، ریاض شمیم، ١٩٣:٧ )