زیربند

( زیربَنْد )
{ زیر (ی مجہول) + بَنْد }
( فارسی )

تفصیلات


فارسی زبان سے ماخوذ صفت 'زیر' کے آخر پر فارسی مصدر 'بستن' سے صیغۂ امر 'بند' لگانے سے مرکب 'زیر بند' بنا۔ اردو میں بطور اسم استعمال ہوتا ہے۔ ١٨١٤ء کو "نو رتن" میں مستعمل ملتا ہے۔

اسم نکرہ ( مذکر - واحد )
١ - وہ تسمہ جو زین سے گزار کر گھوڑے کے پیٹ کے نیچے باندھا جاتا ہے، گھوڑے کا تنگ۔
"لڑتا ہوا دشمن کے منھ میں پہنچا ہی تھا کہ اس کے گھوڑے کا زیر بند ٹوٹ گیا۔"      ( ١٩٣٥ء، عبرت نامہ اندلس، ٩٠٠ )
٢ - تسمہ، چابک، کوڑا۔
"مارے زیربندوں کے چمڑی اڑ جائے گی۔"      ( ١٩٣٣ء، فراق دہلوی، لال قلعہ کی ایک جھلک، ٣٩ )
٣ - [ زین سازی ]  الف ہونے والے گھوڑے کے دہانے اور تنگ کے درمیان بندھا ہوا ڈنڈے دار دو موا تسمہ۔ (اصطلاحات پیشہ وراں)
  • martingal;  girth;  whip
  • lash