زیرباری

( زیرباری )
{ زیر (ی مجہول) + با + ری }
( فارسی )

تفصیلات


فارسی زبان سے ماخوذ صفت'زیر' اور اسم 'بار' کے آخر پر 'ی' بطور لاحقۂ کیفیت لگانے سے مرکب 'زیرباری' بنا۔ اردو میں بطور اسم استعمال ہوتا ہے۔ ١٨٤٤ء کو "مفیدالاجسام" میں مستعمل ملتا ہے۔

اسم کیفیت ( مؤنث - واحد )
١ - بوجھ کے نیچے دبنا، مصیبت کے دباؤ میں ہونا۔
 گلہ ہم کیا کریں دنیا میں اپنی زیرباری کا خمیدہ پشت بار کوہ غم سے آسماں تک ہے      ( ١٩٠٧ء، دفتر خیال، ١٣٠ )
٢ - قرضہ داری، مقروض ہونا، مصارف پر مجبور ہونا۔
"والدین کو کتنی پریشانی اٹھانی پڑتی ہے کتنی زیر باری ہوتی ہے۔"      ( ١٩٨٦ء، اردو گیت، ٥١٨ )
٣ - پریشانی جو زیادہ مصارف یا اخراجات کی وجہ سے ہو۔
"ان لوگوں کو یہاں آنے میں اور رہنے میں اور جانے میں زرکثیر صرف ہوا بہت زیر باری ہوئی۔"      ( ١٨٩٢ء، انشائے داغ، ٦٢ )
  • burdens
  • expenses;  state of embarrassment;  wretchedness