ڈبی

( ڈِبّی )
{ ڈِب + بی }
( پراکرت )

تفصیلات


اصلاً پراکرت زبان کا لفظ ہے۔ اردو میں پراکرت سے ماخوذ ہے۔ اصل معنی کے ساتھ عربی رسم الخط میں بطور اسم استعمال ہوتا ہے۔ ١٦٨٧ء کو "یوسف زلیخا" میں مستعمل ملتا ہے۔

اسم نکرہ ( مؤنث - واحد )
جنسِ مخالف   : ڈِبّا [ڈِب + با]
جمع   : ڈِبِّیاں [ڈِب + بِیاں]
جمع غیر ندائی   : ڈِبِّیوں [ڈِب + بِیوں (و مجہول)]
١ - دھات، لکڑی وغیرہ کی چھوٹی ڈبیا۔
"دکنی میں تیلی کو کاڑی اور ماچس کو ڈبیہ کو کاڑی کی ڈبیہ یا کاڑی کی ڈبی کہتے ہیں۔"      ( ١٩٧٤ء، پھر نظر میں پھول مہکے، ١٣٢ )
٢ - چھوٹی کپی جس میں تیل ڈالتے اور چراغ کی طرح بتی لگا کر روشن کرتے ہیں۔"
 شیشی اور پچھاڑے جو تھا جس میں تیل ڈبی کوں تو کاجل کی دیئے گھوڑ پہ میل      ( ١٦٨٧ء، ہاشمی، یوسف زلیخا، ٢٠٧ )
٣ - [ حشریات ]  کیپسول نما، سخت جھلی کا خانہ بند خول، کویا، بیج۔
"یہ آخری کینچلی سخت ہو کر ایک ڈبی کی صورت اختیار کر لیتی ہے۔"      ( ١٩٦٧ء، بنیادی حشریات، ٨٠ )
٤ - سگریٹ کی ڈبیا، سگریٹ کا پیکٹ۔
 قینچی کی ایک ڈبی پہ راضی ہوا وکیل دیکھیں کلرک مانگتا ہے منشیانہ کیا      ( ١٩٧٤ء، ہزلیات، ١١٨ )