طبع لا ابالی

( طَبْعِ لا اُبالی )
{ طَب + عے + لا + اُبا + لی }
( عربی )

تفصیلات


عربی زبان میں ثلاثی مجرد کے باب سے مشتق اسم 'طبع' کے ساتھ کسرہ صفت لگا کر عربی سے ماخوذ ترکیب 'لا اُبالی' لگانے سے مرکب توصیفی بنا۔ اردو میں اپنے حقیقی معنی و ساخت کے ساتھ بطور اسم استعمال ہوتا ہے۔ ١٩٢١ء کو "کلیات اکبر" میں تحریراً مستعمل ملتا ہے۔

اسم کیفیت ( مؤنث - واحد )
١ - لاپروا طبیعت، بے اصولی طبیعت۔
 جوشش سودا کو طبعِ لا اُبالی چاہیے منظر مجنوں کو تصویر خیالی چاہیے      ( ١٩٢١ء، کلیات اکبر، ٦١:٢ )