زر بکف

( زَر بَکَف )
{ زَر + بَکَف }

تفصیلات


فارسی زبان سے ماخوذ اسم 'زر' کے ساتھ 'ب' بطور حرف جار لگا کر فارسی اسم 'کف' لگا کر مرکب 'زر بکف' بنا۔ اردو میں بطور صفت استعمال ہوتا ہے۔ ١٨٤٦ء کو "کلیات آتش" میں مستعمل ملتا ہے۔

صفت ذاتی ( واحد )
١ - ہاتھ میں سونا لیے ہوئے، مراد : پھولوں کے اندر کا زیرہ۔
 زیر زمیں سے آتا ہے جو گل سو زربکف قاروں نے راستے میں لٹایا خزانہ کیا      ( ١٨٤٦ء، آتش، کلیات، ٦ )