زر اندوز

( زَر اَنْدوز )
{ زَر + اَن + دوز (و مجہول) }
( فارسی )

تفصیلات


فارسی زبان سے ماخوذ اسم 'زر' کے ساتھ فارسی مصدر 'اندوختن' سے 'اندوز' بطور صیغۂ امر لگا کر مرکب 'زر اندوز' بنا۔ اردومیں بطور صفت استعمال ہوتا ہے۔ ١٩٠٨ء کو "خیالستان" میں مستعمل ملتا ہے۔

صفت ذاتی ( واحد )
١ - جس پر سنہری کام یا سونے کا کام ہو۔
"کتاب حیات کی اس جلد کو ایک جلد زر اندوز کی شکل میں دور ہی سے دیکھتا تھا۔"      ( ١٩٠٨ء، خیالستان، ١٩٩ )
٢ - روپیہ پیسہ جمع کرنے والا۔
"یہ چیز خود ان زر اندوز افراد کے لیے بھی وبال جان بن جائے گی۔"      ( ١٩٦١ء، سود، ٨٦ )