زرکشی

( زَرکَشی )
{ زَر + کَشی }
( فارسی )

تفصیلات


فارسی زبان سے ماخوذ 'زر' اور صیغۂ امر 'کش' کے ساتھ 'ی' بطور لاحقۂ کیفیت لگانے سے مرکب 'زرکشی' بنا۔ اردو میں بطور اسم استعمال ہوتا ہے۔ ١٦٩٧ء کو "یوسف زلیخا" میں مستعمل ملتا ہے۔

اسم نکرہ ( مؤنث - واحد )
١ - روپیہ کھینچنے کا عمل، جلب زر۔
"مصنف قومی تعصب سے پاک نہیں بلکہ تالیف کا مقصد ہی یہ ہے کہ انگریزی حکومت پر سے زرکشی اور ہندوستان کو مفلس بنانے کا الزام دور کرے۔"      ( ١٩٥٣ء، تاریخ مسلمانان پاکستان و بھارت، ٤٤٧:١ )
٢ - وہ کپڑا وغیرہ جس پر سونے کے تاروں کا کام ہو۔
 لگائی زرکشی دیوال گیری عجب جا کی سواری دل پذیری      ( ١٦٩٧ء، یوسف زلیخا (قلمی)، امین، ١٦٧ )