زردا

( زَرْدا )
{ زَر + دا }
( فارسی )

تفصیلات


زَرْد  زَرْدا

فارسی زبان سے ماخوذ اسم 'زرد' کے ساتھ 'ا' بطور لاحقۂ نسبت لگانے سے 'زردا' بنا۔ اردو میں بطور صفت استعمال ہوتا ہے۔ ١٧٨٦ء کو "دو نایاب زمانہ بیاضیں" میں مستعمل ملتا ہے۔

صفت ذاتی ( واحد )
واحد غیر ندائی   : زَرْدے [زَر + دے]
جمع   : زَرْدے [زَر + دے]
جمع غیر ندائی   : زَرْدوں [زَر + دوں (و مجہول)]
١ - زرد رنگ کا، پیلا۔
 پڑا اس پر ہے پردہ سرخ رنگ کا اور اس کی بیل کا ہے رنگ زردا      ( ١٨٦٠ء، نوائے غیب، رسالہ علم جوتش (ق)، ٢ )
٢ - وہ کھانے خصوصاً میٹھے چاول جنھیں زعفرانی رنگ وغیرہ ڈال کر زرد کیا جاتا ہے۔
 پلاؤ میں رکھا زردا جو اک بار ہوا اک تختۂ چیں زعفراں زار    ( ١٧٨٦ء، میر حسن (دو نایاب زمانہ بیاضیں، ١٩) )
٣ - کھانے کا تمباکو۔
"جن لفظوں میں غلط نویسی کا کرشمہ زیادہ شامل رہتا ہے . زردا (میٹھے چاول یا کھانے کا تمباکو)    ( ١٩٧٤ء، اردو املا، ٩٥ )
٤ - وہ گھوڑا جس کا رنگ سونے سے مشابہ اور دم سیاہ ہو فقرہ سے کم درجہ سمجھا جاتا ہے۔ (اصطلاحات پیشہ وراں، 21:5)