بافتہ

( بافْتَہ )
{ باف + تَہ }
( فارسی )

تفصیلات


بافتن  بافت  بافْتَہ

فارسی زبان میں مصدر بافتن سے صیغہ ماضی مطلق 'بافت' کے ساتھ 'ہ' لگنے سے صیغہ حالیہ تمام 'بافتہ' بنا۔ اردو میں فارسی سے ماخوذ ہے اور بطور اسم اور گاہے بطور اسم صفت بھی مستعمل ہے۔ ١٨٤٥ء میں 'مجمع الفنون' کے ترجمہ میں مستعمل ملتا ہے۔

صفت ذاتی ( واحد )
واحد غیر ندائی   : بافْتے [باف + تے]
جمع   : بافْتے [باف + تے]
جمع غیر ندائی   : بافْتوں [باف + توں (و مجہول)]
١ - بنا ہوا، بن کر تیار کیا ہوا۔
 وہ تافتہ و سندس و استبرق جنت تھا بافتۂ رشتۂ نورید قدرت      ( ١٨٧٥ء، دبیر، دفتر ماتم، ٩:٢ )
اسم نکرہ ( مذکر - واحد )
واحد غیر ندائی   : بافْتے [باف + تے]
جمع   : بافْتے [باف + تے]
جمع غیر ندائی   : بافْتوں [باف + توں (و مجہول)]
١ - ایک قسم کا ریشمی کپڑا جس کا اعلٰی درجے کے کپڑوں میں شمار ہے۔
"عالی شان بازاروں کا تنگ و تاریک - کوچوں کے ساتھ اتصال بافتہ میں ٹاٹ کے پیوند کی طرح ذوق سلیم کو ناگوار گزرتا تھا۔"      ( ١٩١٢ء، یاسمین، ١١٢ )
٢ - بے دھلے سوت کی بنی ہوئی چھالٹین، کورا لٹھا۔
"ہندوستانی اور ولایتی کپڑے کہ اصل ان کی روئی سے ہے سادہ اور نقش دار جیسے - خاصہ اور بافتہ۔"      ( ١٨٤٥ء، مجمع الفنون (ترجمہ)، ٢٠٩ )