فتنہ سامانی

( فِتْنَہ سامانی )
{ فِت + نَہ + سا + ما + نی }

تفصیلات


عربی زبان سے مشتق اسم 'فتنہ' کے بعد فارسی سے ماخوذ کلمہ 'سامان' بطور اسم فاعل لا کر 'ی' بطور لاحقۂ کیفیت لگانے سے مرکب بنا جو اردو میں بطور اسم استعمال ہوتا ہے۔ ١٩٨٣ء کو "کاروانِ زندگی" میں تحریراً مستعمل ملتا ہے۔

اسم کیفیت ( مؤنث )
جمع   : فِتْنَہ سامانِیاں [فِت + نَہ + سا + ما + نِیاں]
جمع غیر ندائی   : فِتْنَہ سامانِیوں [فِت + نَہ + سا + ما + نِیوں (و مجہول)]
١ - جھگڑا، فساد۔
"سخت بارش اور سیلاب کے زمانہ میں اس کی طغیانی و فتنہ سامانی کا یہ حال ہوتا ہے کہ اس کی حقیر حالت کو دیکھ کر فارسی کا یہ شعر پڑھنے کو جی چاہتا ہے۔"      ( ١٩٨٣ء، کاروانِ زندگی، ٣٩ )