کارساز

( کارساز )
{ کار + ساز }
( فارسی )

تفصیلات


فارسی زبان میں 'کردن' مصدر سے حاصل مصدر کار کے بعد ساختن مصدر سے مشتق صیغۂ امر 'ساز' بطور لاحقۂ فاعلی لانے سے مرکب بنا جو اردو میں بطور صفت نیز بطور اسم استعمال ہوتا ہے۔ تحریراً سب سے ١٥٦٤ء کو "دیوان حسن شوقی" میں مستعمل ملتا ہے۔

صفت ذاتی
١ - کام پورے کرنے والا، حاجتیں برلانے والا، (خدا یا دیوتا کے لیے) کام بنانے والا، کام سنوارنے والا۔
"کلی اعتماد صرف اللہ تعالٰی ہی پر ہونا چاہیے وہی کار سازِ مطلق ہے۔"      ( ١٩٦٩ء، معارف القرآن، ٤٠:١ )
٢ - چالاک، ہوشیار، ماہر، مشّاق۔
 مغل ہر ہنر میں بڑا کارساز لڑائی کے فن پر ات حیلہ ساز (کذا)      ( ١٦٦٥ء، علی نامہ، ٢٧٩ )
٣ - نظم و نسق سنبھالنے والا، کام کرنے یا بنانے والا، کارآمد، کام آنے والا (زمانہ یا شخص وغیرہ کے لیے)۔
"خدا کرے یہ منصب ان کے اور جامعہ کے حق میں ہر طرح کار کشا و کارساز ثابت ہو۔"      ( ١٩٨٧ء، نگار، کراچی، اکتوبر، ٤ )
٤ - پر از واقعات؛ اہم، قابل ذکر۔
"ان کا عہدِ وزارت کوئی بہت قابلِ ذکر یا کار ساز (eventful) نہیں رہا۔"      ( ١٩٨٢ء، آتشِ چنار، ٣٢٨ )
اسم نکرہ ( مذکر - واحد )
جمع غیر ندائی   : کارسازوں [کار + سا + زوں (و مجہول)]
١ - اللہ خدائے تعالٰی
 اس کی بربادی پہ آج آمادہ ہے وہ کارساز جس نے اس کا نام رکھا تھا جہانِ کاف نون      ( ١٩٣٨ء، ارمغان حجاز، ٢١٤ )
٢ - مراد : اللہ کے آخری نبی حضرت محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم۔
 امیں ہے اور کار ساز شافع ہے اور محشر منے      ( ١٧٨٥ء، قصہ حضرت بی بی مریم (میراں)، ١ )
  • dexterous
  • adroit
  • skilful
  • elever;  a doer;  maker;  the Maker
  • the Deity