قلم زد

( قَلَم زَد )
{ قَلَم + زَد }

تفصیلات


عربی زبان سے ماخوذ اسم 'قلم' کے ساتھ فارسی مصدر 'زدن' سے مشتق صیغہ امر 'زد' بطور لاحقہ فاعلی ملانے سے مرکب بنا۔ اردو میں بطور صفت مستعمل ہے۔ ١٩٤٧ء میں "مضامین فرحت" میں مستعمل ملتا ہے۔

صفت ذاتی ( واحد )
جمع غیر ندائی   : قَلَم زَدوں [قَلَم + زَدوں (و مجہول)]
١ - کاٹی ہوئی تحریر، منسوخ کیا ہوا۔
"بعض حضرات نے . شوق صاحب کے شعر پر صرف یہ لکھ دیا کہ "قلمزد"۔      ( ١٩٤٧ء، فرحت، مضامین، ٣، ١٦٩ )
٢ - [ مجازا ]  کٹا ہوا، ملیا میٹ۔
 جائزہ ہو گیا لشکر کا جدھر باگ پھری پلٹنیں تھیں جو قلم زد تو رسالے نظری      ( ١٩٤٢ء، خمسۂ متحیرہ، ٥٠:٥ )