اتفاقیہ

( اِتِّفاقِیَّہ )
{ اِت + تِفا + قی + یَہ }
( عربی )

تفصیلات


وفق  اِتِّفاقی  اِتِّفاقِیَّہ

عربی زبان کے مصدر 'اتفاق' کے ساتھ 'ی' بطور لاحقۂ نسبت اور 'ہ' بطور لاحقۂ تانیث استعمال کیا گیا ہے۔ اردو میں ١٨٧٦ء کو "مبادی الحکمہ" میں مستعمل ملتا ہے۔

اسم مجرد ( مذکر - واحد )
جمع   : اِتّفاقِیے [اِت + تِفا + قِیے]
جمع غیر ندائی   : اِتِّفاقِیوں [اِت + تِفا + قِیوں (و مجہول)]
١ - [ منطق ]  قضیہ شرطیہ، جس میں مقدم و تالی کے درمیان لزوم نہ ہو بلکہ بغیر سبب دونوں کے یک جا ہو جانے کی وجہ سے حکم لگایا گیا ہو، جیسے انسان بولتا ہے تو گھوڑا ہنہناتا ہے۔
"جب متصلہ کے مقدم و تالی میں کوئی علاقہ باعث اتصال ہو گا تو متصلہ لزومیہ ہے ورنہ اتفاقیہ۔"      ( ١٨٧١ء، مبادی الحکمہ، ٤٦ )
متعلق فعل
١ - اتفاقاً، اچانک۔
"فتح علی شاہ، شاہ ایران نے بھی اس واقعہ کا اتفاقیہ واقع ہونا تسلیم کیا۔"      ( ١٨٩٦ء، سیرت فریدیہ، ١٣ )
صفت نسبتی
١ - جو اتفاق سے یا اچانک ہو، بے سان و گمان۔
"آگ کا تمام گھر پھونک تماشا، اتفاقیہ حادثہ، ہو کر رہ گیا۔"      ( ١٩٣٢ء، اخوان الشیاطین، ٣٣٠ )