شبنم افشاں

( شَبْنَم اَفْشاں )
{ شَب + نَم + اَف + شاں }
( فارسی )

تفصیلات


فارسی زبان سے ماخوذ اسم 'شبنم' کے بعد فارسی مصدر 'افشاندن' کا صیغہ امر 'افشاں' بطور لاحقۂ فاعلی لگانے سے مرکب بنا۔ اردو زبان میں بطور صفت استعمال ہوتا ہے۔ ١٩٢٤ء کو "بانگ درا" میں تحریراً مستعمل ملتا ہے۔

صفت ذاتی
١ - شبنم چھڑکنے والا۔
 گریہ ساماں میں، کہ میرے دل میں ہے طوفان اشک شبنم افشاں تو، کہ بزم گل میں ہو چرچا ترا      ( ١٩٢٤ء، بانگ درا، ٢٠٣ )