شمشیر بردار

( شَمْشِیر بَرْدار )
{ شَم + شِیر + بَر + دار }
( فارسی )

تفصیلات


فارسی زبان سے ماخوذ اسم 'شمشیر' کے بعد فارسی مصدر 'برداشتن' سے صیغۂ امر 'بردار' بطور لاحقۂ فاعلی لگانے سے مرکب بنا۔ ١٩٨٧ء کو "روز نامہ جنگ" میں تحریراً مستعمل ملتا ہے۔

صفت ذاتی ( واحد )
جمع غیر ندائی   : شَمْشِیر بَرْداروں [شَم + شِیر + بَر + دا + روں (و مجہول)]
١ - شمشیر بدست، تلوار لئے ہوئے۔
"چاند بی بی اور جھانسی کی رانی جیسے سیاسی قبیلے کی شمشیر بردار نمائندہ خاتون ہیں۔"      ( ١٩٨٧ء، جنگ، کراچی، ٨ دسمبر، ٣ )