لچکنا

( لَچَکْنا )
{ لَچَک + نا }
( ہندی )

تفصیلات


ہندی زبان سے ماخوذ اسم 'لچک' کے ساتھ اردو لاحقہ مصدر 'نا' لگانے سے 'لچکنا' بنا۔ اردو میں عربی رسم الخط کے ساتھ بطور فعل استعمال ہوتا ہے۔ ١٨٢٤ء کو "دیوانِ مصحفی" میں تحریراً مستعمل ملتا ہے۔

فعل لازم
١ - کسی نرم شے کا جھک کر یا دب کر اپنی جگہ یا اپنی حالت پر واپس آجانا۔
"اگر انڈے کو ابال لو تو پھر مشکل سے لچکتا ہے۔"    ( ١٩٠٦ء، مخزن، اکتوبر، ٤٧ )
٢ - [ مجازا ] نرم پڑنا، نرمی برتنا، ایک حالت سے دوسری حالت میں آجانا۔
"حکومت اس سے پورا فائدہ اٹھا رہی تھی اور لچکنے کو تیار نہ تھی۔"    ( ١٩٧٧ء، ہندی اردو تنازع، ٢٦٤ )
٣ - مڑنا، بل کھانا، جھکنا (شاخ کی طرح)؛ (مجازاً) مٹکنا، نازو ادا سے چلنا۔
 اک لچکتا ہلال یا ابرو اک پکتی شعاع یا چتون      ( ١٩٧٦ء، جاں نثار اختر، سکوت شب، ٨ )
٤ - موچ کھانا۔
 بوجھ سے اس کے لچکتی ہے کلائی ان کی دستِ نازک میں کوئی پھول اگر ہوتا ہے      ( ١٩٢٢ء، دیوان جگر، ١٤٩ )
٥ - لرزنا، کانپنا نیز ٹیڑھا ہونا۔
 اس طرح آئی جھوم کے اک موجِ پرخروش حدّ نگاہ تک خطِ ساحل لچک اٹھا      ( ١٩٥٨ء، تار پیراہن، ٤٦ )
٦ - حرکت میں آنا، جنبش میں آنا، جنباں ہونا۔
 کچھ سہم کے نہیب سے تھراسے مثل بِید لچکے جو مدعی پہ ترا تازیانہ آج      ( ١٨٧٨ء، گلزار داغ، ٣١٢ )
٧ - اچھلنا (حیرت وغیرہ سے)۔ (پلیٹس)