لسان الغیب

( لِسانُ الْغَیب )
{ لِسا + نُل (ا غیر ملفوظ) + غَیب (ی لین) }
( عربی )

تفصیلات


اصلاً عربی ترکیب ہے، عربی زبان سے مشتق اسم 'لسان' کے ساتھ 'ا ل' بطور حرف تخصیص لگانے کے بعد عربی اسم 'غیب' لگانے سے مرکب بنا۔ اردو زبان میں بطور اسم اور صفت استعمال ہوتا ہے۔ ١٩٠٧ء کو "مقالاتِ حالی" میں تحریراً مستعمل ملتا ہے۔

اسم نکرہ ( مذکر - واحد )
١ - غیب کی باتیں بتانے والا، غیبی آواز؛ مراد: ایسا ماہر زبان جو غیرمعمولی صفات سے متصف ہو۔
"غالب نے لسان الغیب بن کر میرے لیے یہ شعر لکھا تھا۔"      ( ١٩٢٨ء، حیات جوہر، ٢٥٩ )
٢ - فارسی کے مشہور شاعر خواجہ حافظ شیرازی کا لقب جن کے دیوان سے لوگ فال نکالتے ہیں۔
"شاید لسان الغیب نے اس نظارہ کو اپنے شعر میں بیان کر دیا تھا۔"      ( ١٩٨٧ء، اردو ادب میں سفرنامہ، ٢٠٦ )
٣ - [ کنایۃ ]  خداوند تعالیٰ، خدائے بزرگ و برتر۔
"ہم نے اپنے کلام میں لسان الغیب کنایۃً خداوند تعالیٰ شانہ کو کہا ہے۔"      ( ١٩١٩ء، معیار فصاحت، ١٨١ )