لذت گیر

( لَذَّت گِیر )
{ لَذ + ذَت + گِیر }

تفصیلات


عربی زبان سے مشتق اسم 'لذت' کے بعد فارسی مصدر 'گرفتن' سے صیغہ امر 'گیر' بطور لاحقہ فاعلی لگانے سے مرکب بنا۔ اردو زبان میں بطور صفت استعمال ہوتا ہے۔ ١٩٢٤ء کو "بانگ درا" میں تحریراً مستعمل ملتا ہے۔

صفت ذاتی
١ - مزہ لینے والا، لطف اٹھانے والا، محفوظ ہونے والا۔
 کیا نتیجہ ہے اگر دل ہی نہ لذت گیر ہو لاکھ ساقی لاکھ شیشے لاکھ پیمانے سہی      ( ١٩٦١ء، صدائے دل، ١٨٨ )