دل والا

( دِل والا )
{ دِل + وا + لا }

تفصیلات


فارسی زبان سے ماخوذ اسم 'دل' کے ساتھ فارسی اسم صفت 'والا' بطور لاحقۂ فاعلی لگانے سے مرکب بنا۔ اردو میں بطور اسم استعمال ہوتا ہے اور تحریراً ١٨٩٦ء سے "شاہد رعنا" میں مستعمل ملتا ہے۔

اسم نکرہ ( مذکر )
واحد غیر ندائی   : دِل والے [دِل + وا + لے]
جمع غیر ندائی   : دِل والوں [دِل + وا + لوں (و مجہول)]
١ - سخی، فیاض، باہمت۔
"واحدی صاحب کی طرح یہ بھی وضع دار دل والے تھے۔"      ( ١٩٦٧ء، اجڑا دیار، ٣٨٣ )
٢ - دلیری، حوصلے والا، جری۔
 پتھر کو بھی چھو کر دیکھا ہے دل والوں نے پر تیرا دل کس طرح اسے پتھر کہیے پتھر میں بھی اک چنگاری ہے      ( ١٩٨٠ء، فکر جمیل، ١٤٤ )