دلاسا

( دِلاسا )
{ دِلا + سا }
( فارسی )

تفصیلات


فارسی زبان میں (دل + آس) کے ساتھ 'ا' بطور لاحقۂ فاعلی لگانے سے 'دِلاسا' بنا۔ اردو میں بطور اسم استعمال ہوتا ہے اور تحریراً ١٥٩١ء سے "قصہ گل و صنوبر" کے قلمی نسخہ میں مستعمل ملتا ہے۔

اسم مجرد ( مذکر، مؤنث - واحد )
واحد غیر ندائی   : دِلاسے [دِلا + سے]
جمع   : دِلاسے [دِلا + سے]
جمع غیر ندائی   : دِلاسوں [دِلا + سوں (و مجہول)]
١ - تسلی، تشفی، تسکین۔
"جیسے ڈھارس بندھانا چاہتی ہو جیسے ہمت بڑھا رہی ہو جیسے دلاسہ دینا چاہتی ہو۔"      ( ١٩٨٦ء، نگار، کراچی، جولائی، ٤٨ )