دل نواز

( دِل نَواز )
{ دِل + نَواز }
( فارسی )

تفصیلات


فارسی زبان سے ماخوذ اسم 'دل' کے بعد مصدر 'نواختن' سے صیغہ امر 'نواز' بطور لاحقۂ فاعلی لگانے سے مرکب بنا۔ اردو میں بطور صفت استعمال ہوتا ہے اور تحریراً ١٦٤٩ء سے "خاورنامہ" میں مستعمل ملتا ہے۔

صفت ذاتی ( مذکر - واحد )
جمع غیر ندائی   : دِل نَوازوں [دِل + نَوا + زوں (و مجہول)]
١ - ہم خیال، غمگسار۔
"ان کے چہرہ پر ان کی دلنواز مسکراہٹ جیسے سمٹ کر رہ گئی۔"      ( ١٩٨٥ء، آتش چنار (پیش لفظ)، ح )
٢ - دِل لبھانے والا، متوجہ کرنے والا؛ تسلی دینے والا۔
"ایک خوبصورت لڑکی نے دروازہ کھولتے ہی . دلنواز مسکراہٹ سے ہمارا خیر مقدم کیا۔"      ( ١٩٨٠ء، دائروں میں دائرے، ٥٤ )
٣ - خوش آیند، روح افزا۔
"درباری موسیقی کو بھی نہایت دلنواز دھنوں اور الہامی نغموں سے مالا مال کیا۔"      ( ١٩٨٣ء، کوریا کہانی، ٤٤ )