دلاویز

( دِلاویز )
{ دِلا + ویز (ی مجہول) }
( فارسی )

تفصیلات


فارسی زبان سے ماخوذ اسم 'دل' کے بعد مصدر 'آویختن' سے صیغہ امر 'آویز' بطور لاحقۂ فاعلی لگانے سے بنا۔ کثرت استعمال سے 'ا' ممدودہ، 'ا' مقصورہ میں بدل گیا۔ اردو میں بطور صفت استعمال ہوتا ہے اور تحریراً ١٧٩٨ء سے "دیوان شاہ سلطان ثانی" میں مستعمل ملتا ہے۔

صفت ذاتی ( واحد )
١ - من بھاتا، دل پسند، دل لبھانے والا، دل آویز۔
"ایسا کرنا شیر کشمیر کی دلاویز یاد کے ساتھ ساتھ ایک عظیم مرثیے کی قومی امانت میں تحریف کرنے کا کبیرہ بھی ہوتا ہے۔"      ( ١٩٨٥ء، آتش چنار (پیش گفتار) ت )