دم پخت

( دَم پُخْت )
{ دَم + پُخْت }
( فارسی )

تفصیلات


فارسی زبان سے ماخوذ اسم 'دَم' کے ساتھ مصدر'پختن' سے صیغہ امر 'پخت' بطور لاحقۂ فاعلی لگانے سے مرکب بنا۔ اردو میں بطور اسم اور صفت استعمال ہوتا ہے اور تحریراً ١٦٨٠ء سے "مثنوی محمدامین" میں مستعمل ملتا ہے۔

صفت ذاتی ( واحد )
١ - خاموش، گم سم، ساکت، چپ، دم بخود۔
"کہیں جانے کا اتفاق بھی ہوا تو پالکی کے دبیز پردوں میں دم پخت۔"      ( ١٨٩٣ء، بست سالہ عہد حکومت، ٣٦٣ )
٢ - گھٹ کر مرنے کا عمل۔
"نہیں میں نہیں چاہتا کہ تم لوگوں کا دم پخت بن جائے۔"      ( ١٩٧٠ء، قافلہ شہیدوں کا، ٣٥٨:١ )
اسم نکرہ ( مذکر - واحد )
١ - پتیلی یا دیگ کی بھاپ روک کر منہ بند کر کے پکایا ہوا کھانا، وہ چیز جو پتیلی کے منہ کو آٹا لگا کر بند کر کے پکائی جائے، ایک طرح کا پلاؤ۔
"صاحب یہ دم پخت بہت تکلف سے پکا ہے۔"    ( ١٨٤٢ء، الف لیلہ، عبدالکریم، ١٦٣:٢ )
٢ - گوشت کے پارچہ یا سالم بکرے کا تیار کیا ہوا کھانا، بھاپ بند طریقہ سے پکانے کا عمل۔
"میں نے باورچی کو بلایا اس نے بتایا مسلم حلوان کا دم پخت، چھ مرغ کے دو پیازے، چار کے کباب . سن کے خوش ہوا۔"    ( ١٨٦٢ء، شبستان سرور، ١٤١ )
٣ - اندر ہی اندر جوش کھانا؛ دو چیزوں کے درمیان، دب کر رہ جانے کا عمل؛ ذہنی الجھن، انتشار۔
"دونوں غصے کے جلے ہوئے۔ میرا بھڑک اٹھنے والا۔ اس کا دم پخت۔"      ( ١٩٨٦ء، اوکھے لوگ، ١٢٧ )