دورۂ افلاک

( دَورَۂِ اَفْلاک )
{ دَو (و لین) + رَہ + اے + اَف + لاک }
( عربی )

تفصیلات


عربی زبان سے مشتق اسم 'دورہ' کے بعد ہمزہ اضافی لگا کر مکرۂ اضافت کے ساتھ عربی اسم 'فلک' کی جمع 'افلاک' لگانے سے مرکب بنا۔ اردو میں بطور اسم استعمال ہوتا ہے۔ تحریراً ١٨٧٥ء سے "دبیر۔ دفتر ماتم" میں مستعمل ملتا ہے۔

اسم مجرد ( مذکر - واحد )
١ - [ مجازا ]  سعد ستاروں کا اثر۔
 تھی حق سے دعا خلق کی یہ اے احدِ پاک شہزادی کے مقصد پہ ہو اب دورۂ افلاک      ( ١٨٧٥ء، دبیر، دخترِ ماتم، ١٤٦:٢ )