دو دل

( دو دِل )
{ دو (و مجہول) + دِل }
( فارسی )

تفصیلات


فارسی زبان سے ماخوذ اسم 'دو' کے بعد فارسی زبان ہی سے ماخوذ اسم 'دل' لگانے سے مرکب بنا۔ اردو میں بطور اسم استعمال ہوتا ہے اور تحریراً ١٦١١ء سے "کلیات قلی قطب شاہ" میں مستعمل ملتا ہے۔

اسم نکرہ ( مذکر - واحد )
جمع غیر ندائی   : دو دِلوں [دو (و مجہول) + دِلوں (و مجہول)]
١ - باہم متحد، یک جان و قالب، یک جان؛ (مجازاً) عاشق و معشوق۔
 دو دلوں میں یہ فاصلے کیسے تیسرا کوئی درمیاں تو نہیں      ( ١٩٧٥ء، پردۂ سخن، ٥٩ )
٢ - تذبدب، گومگو، ہچکچاہٹ، دو دلی۔
 دو دل سیتی تمن سوں جن کو کوئی کہتے پیرت جیو کے نین سوں ہرگز نا دیکھے دلکشا صبح      ( ١٦١١ء، قلی قطب شاہ، کلیات، ٧٧ )