دو بول

( دو بول )
{ دو (و مجہول) + بول (و مجہول) }

تفصیلات


فارسی زبان سے ماخوذ صفت عددی 'دو' کے ساتھ ہندی زبان سے ماخوذ اسم 'بول' لگانے سے مرکب بنا۔ اردو میں بطور اسم استعمال ہوتا ہے۔ تحریراً ١٦٧٢ء سے "کلیات شاہی" میں مستعمل ملتا ہے۔

اسم نکرہ ( مذکر - واحد )
جمع غیر ندائی   : دو بولوں [دو (و مجہول) + بو (و مجہول) + لوں (و مجہول)]
١ - دو لفظ، نہایت مختصر بات۔
 یا بڑھاپا ہے یا جوانی تھی عمر دو بول کی کہانی تھی      ( ١٩٢٧ء، شاد عظیم آبادی، میخانۂ الہام، ٣٠٧ )
٢ - نکاح کا ایجاب و قبول، نکاح۔
 میں نے کہا خدا کی قسم تیرا عقد کیا دو بول کہہ کے ہو گیا کیا فرض سے ادا١٩٣٨ء، کلیات عریاں،٨      ( ١٩٣٨ء، کلیات عریاں، ٨ )