سخن آفرین

( سُخَن آفْرِین )
{ سُخَن + آف + رِیں }
( فارسی )

تفصیلات


فارسی زبان سے ماخوذ اسم 'سخن' کے ساتھ 'آفریدن' مصدر سے صیغہ امر 'آفریں' بطور لاحقۂ فاعلی لگانے سے مرکب بنا۔ اردو میں بطور صفت استعمال ہوتا ہے۔ تحریراً ١٨٩٥ء سے "دیوان زکی" میں مستعمل ملتا ہے۔

صفت ذاتی ( واحد )
١ - فصیح اللسان؛ (کنایۃً) شاعر، سخن گو، سخن طراز۔
 کہدے بنا کے بات کہ وہ مجکو دیکھ لیں محفل میں ڈھونڈتا ہوں سخن آفریں کو میں      ( ١٨٩٥ء، دیوان زکی، ١١٩ )