سخن سازی

( سُخَن سازی )
{ سُخَن + سا + زی }
( فارسی )

تفصیلات


فارسی زبان سے ماخوذ مرکب 'سُخن ساز' کے ساتھ 'ی' بطور لاحقۂ کیفیت لگانے سے مرکب بنا۔ اردو میں بطور اسم استعمال ہوتا ہے۔ تحریراً ١٧٩٥ء سے "دیوان قائم" میں مستعمل ملتا ہے۔

اسم کیفیت ( مؤنث - واحد )
١ - چرب زبانی، باتوں کی چالاکی، لسانی، لفاظی۔     
"چشم بددور! فن سخن سازی میں خوب ماہر ہو۔"     رجوع کریں:   ( ١٩٤٠ء، صحرا نورد کے خطوط، ١٤ )
٢ - مکاری، ظاہر داری، زمانہ سازی۔
"سخن سازی کے طریقے پر کہنے لگی بیٹا اگر تجھے اصرار ہے اگر تو کہے گی تو میں یہیں رہوں گی۔"      ( ١٨٨٨ء، ملک العزیز ورجنا، ١٣٦ )
٣ - دورغ گوئی۔
 جھوٹ سب جھوٹ یہ غیروں کی سخن سازی ہے میرا ذمہ ہے جو الفت ہو سرمو دل میں      ( ١٩١١ء، ظہیر، دیوان، ٧٦:٢ )
٤ - شعرگوئی، شاعری۔
"ادھر پورا جتھا (انجمن ارباب علم) اور یہی مشغلہ سخن سازی و مشاعرہ بازی بطور کاروبار۔"      ( ١٩٨٨ء، صحیفہ، آزادی نمبر، جولائی تا ستمبر، ٨٢ )
  • Oratory
  • elocution
  • eloquence
  • address;  fabrication
  • invention;  defamation