سجدۂ سہو

( سَجْدَۂِ سَہْو )
{ سَج + دَہ + اے + سَہْو (فتح س مجہول) }
( عربی )

تفصیلات


عربی زبان ماخوذ اسم 'سجدہ' کے آخر پر ہمزہ زائد لگا کر کسرۂ اضافت لگانے کے بعد عربی ہی سے ماخوذ اسم 'سہو' لگانے سے مرکب بنا۔ اردو میں بطور اسم استعمال ہوتا ہے۔ تحریراً ١٨٧٨ء سے "مقالات حالی" میں مستعمل ملتا ہے۔

اسم معرفہ ( مذکر - واحد )
١ - نماز میں بعض واجب ارکان کے سہواً چھوٹ جانے سے نماز کی آخری رکعت میں دو سجدے کیے جاتے ہیں جن سے لغزش کی تلافی ہو جاتی ہے۔
"اسی طرح احتیاطاً ہر واجب کی کمی کے لیے سجدہ سہو بجا لائے۔"      ( ١٩٦٢ء، تحفتہ العوام کامل جدید، ١٤٨ )
٢ - کسی شخصیت کے آگے پیشانی جھکا دینا، اس کی اطاعت قبول کرلینا، بھول چوک کی معافی تلافی۔
"مولوی یوسف شاہ. نے مہارجہ کشمیر. کی اطاعت کا مشورہ دیا، یہ دیوبند کے اس فارغ التحصیل کا سجدہ سہو تھا۔"      ( ١٩٨٢ء، آتش چنار، ٧٦٤ )