سحر فشاں

( سَحَر فِشاں )
{ سَحَر (فتحہ س مجہول) + فِشاں }

تفصیلات


عربی زبان سے ماخوذ اسم 'سحر' کے ساتھ فارسی مصدر 'فشاندن' سے صیغہ امر 'فشاں' بطور لاحقۂ فاعلی لگانے سے مرکب بنا۔ اردو میں بطور صفت استعمال ہوتا ہے۔ تحریراً ١٩٨٦ء سے "پاکستانی معاشرہ اور ادب" میں مستعمل ملتا ہے۔

صفت ذاتی ( واحد )
١ - صبح کا اجالا بکھیرنے والا۔
"مفرد و مرکب الفاظ کا بہت بڑا ذخیرہ ایسا ہے جو بالکل نیا ہے. گل چہرہ. سحر فشاں۔"      ( ١٩٨٦ء، پاکستانی معاشرہ اور ادب، ٩٤ )