کتربیونت

( کَتربِیونْت )
{ کَتَر + بِیونْت (و مجہول، ن غنہ) }

تفصیلات


پراکرت سے ماخوذ مصدر 'کترنا' سے حاصل مصدر 'کَتَر' کے بعد سنسکرت سے ماخوذ اسم 'بیونت' لانے سے مرکب بنا جو اردو میں بطور اسم استعمال ہوتا ہے۔ تحریراً سب سے پہلے ١٩١٤ء کو "حسن کا ڈاکو" میں مستعمل ملتا ہے۔

اسم نکرہ ( مؤنث - واحد )
١ - کپڑے کی تراش؛ کاٹ، کپڑا کاٹنا (سلنے کے لیے)۔
"اس لباس کو اپنے جسم اور اپنی شخصیت کے مطابق بنانے کے لیے بہت سی کتر بیونت اور نقش کاری کی ضرورت ہے۔"      ( ١٩٧٩ء، شیخ ایاز، شخص اور شاعر، ٢٦ )
٢ - کاٹ چھانٹ، قطع و برید۔
 کہیں کھڑ کھڑ ہے پاندا نواں کی ہے کثر بیونْت اچھے پانوں کی      ( ١٨٧٣ء، کلیات منیر، ٥٨٣:٣ )
٣ - (سودے سلف یا محاصل وغیرہ میں سے) کچھ بچانے کا عمل، (خریدو فروخت میں)، کچھ نقد یا جنس کی چوری، کتوانی؛ خورد بُرد۔
"اسکی کتربیونت اور محلے والیوں سے جوڑ توڑ اچھے مالی نتائج پیدا کرتی تھی۔"      ( ١٩٨٣ء، اجلے پھول، ١٢٧ )
٤ - کمی؛ تخفیف؛ کٹوتی۔
"اِن تنخواہوں میں کتر بیونْت شروع ہوئی۔"      ( ١٩٣٥ء، چند ہم عصر، ٣٣٢ )
٥ - کسی مضمون کے اضل الفاظ میں تخفیف؛ تحریف، ترمیم۔
"کوئی ڈرامہ کہیں بھی نقل کر دیا جاتا تھا اور پھر مقامی سٹیج کے تقاضوں کے تحت اس میں کتر بیونت کرلی جاتی تھی۔"      ( ١٩٨٨ء، اردو، کراچی، جنوری، ٤٧ )
٦ - (چال بازی سے) جوڑ توڑ؛ کاٹ چھانٹ۔
"سلطان مراد خان کے خانداں میں کتربیونت کرنی اور جوڑ توڑ لڑانے شروع کیے۔"      ( ١٩٢٨ء، مضامین مرزا حیرت، ٥٢ )
٧ - سوچ بچار، ادھیڑ بُن۔
"میں نظریوں کی کتربیونت میں الجھے بغیر زندگی سے اپنی کوکھ بھرکے اٹھتی ہوں۔"      ( ١٩٤٩ء، اک محشرِ خیال، ٨٤ )