تدافع

( تَدافُع )
{ تَدا + فُع (ضحہ ف مجہول) }
( عربی )

تفصیلات


دفع  تَدافُع

عربی زبان میں ثلاثی مجرد کے باب سے مشتق اسم ہے اردو میں اصل معنی اور حالت میں بطور اسم مستعمل ہے۔ ١٩٥٩ء میں "مقدمہ تاریخ سائنس میں مستعمل ملتا ہے۔"

اسم نکرہ ( مؤنث - واحد )
١ - مدافعت، دفاع، دفعیہ۔
"اگر حرارت نکال لی جائے تو قوت تدافع کم ہو جاتی ہے۔"      ( ١٩٠٠ء، غربی طبیعیات کی ابجد، ٦٤ )
٢ - ایک دوسرے کو دھکیلنے یا دفع کرنے کا عمل۔
"جس قدر کہ جگہ اس میں ہے اس سے زیادہ جگہ چاہیے پس بعض کو تدافع کرتا ہے چہار جہات میں۔"      ( ١٨٧٧ء، عجائب المخلوقات، ١٥١ )
٣ - حیلہ، حوالہ۔
"مراتب واقع کے مابین ارباب بصیرت کے ہاں کوئی تدافع نہیں۔"      ( ١٩٢٦ء، اورینٹل کالج میگزین، مئی، ٤٠ )